غیرت کی خاطر ایک کہانی

Sunday, December 31, 2023 صبا اور میں ہم عمر تھیں۔ اُس کی امی سے میری والدہ کی ایک عرصے سے دوستی تھی ۔ دونوں کا میکہ ایک ہی محلے میں تھا اور خالہ شازیہ یعنی صبا کی والدہ امی کی ہم جماعت بھی تھیں-حسن اتفاق امی کی شادی جس خاندان میں ہوئی خالہ شازیہ بھی بیاہ کر بعد میں اس خاندان میں آگئیں ۔ یہ رشتہ امی نے اپنی ساس سے کہہ کر کروایا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ ان کی سہیلی قریب آئے۔ سلیم انکل میرے والد کے دور کے رشتہ دار تھے۔ دونوں کے والد آپس میں غالباً خالہ زاد بھائی تھے۔ بہر حال سلیم انکل کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا، لہذا امی کی کوشش کامیاب رہی اور شادی کے بعد بھی دونوں سہیلیوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا سہل ہو گیا۔ دوستی اور مضبوط ہوگئی۔ سلیم انکل اور شازیہ خالہ کواللہ تعالی نے پہلے بیٹے سے اور پھر بیٹی سے نوازا، جس کا نام انہوں نے صبا رکھا۔ انہی دنوں میرے والدین کے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی یعنی میں نے جنم لیا۔ یوں صبا مجھ سے صرف ایک ماہ بڑی تھی، جیسے ہماری ماؤں کی آپس میں مثالی دوستی تھی، ویسی ہی میری بھی صبا سے دوستی ہوگئی۔ بچپن ساتھ گزرا ، وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ہم دونوں اسکول جانے لگیں اور عمر کی منزلیں طے ہوتی گئیں۔ جن دنوں ہم ساتویں میں تھیں، خالہ شازیہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ جب حسب معمول علاج معالجہ سے فرق نہ پڑا تو تفصیلی میڈیکل چیک آپ کے لئے ان کو لاہور لے گئے ۔ کافی ٹیسٹ وغیرہ کروانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کو کینسر ہے۔ بہر حال انکل سلیم نے بیوی کا علاج کرانا شروع کیا۔ وہ بیچارے خانیوال سے لاہور آتے جاتے ۔ خالہ شازیہ کو شعائیں لگتیں یعنی ریڈی ایشن سے علاج ہوتا رہا، پھر آپریشن تجویز ہوا مگر مرض بڑھتا ہی گیا۔ آخر میں جب ان کی کیمو تھراپی آخری مراحل میں تھی تو ان کا انتقال ہو گیا۔ انکل سلیم اور ان کے بچوں کے لئے جہاں خالہ شازیہ کی وفات ایک صدمہ جانگاہ تھا، وہاں وہ بیمار بیوی کا علاج کرواتے ہوئے تقریبا کنگال ہو گئے۔ تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور ستم بالائے ستم کہ ان کی نوکری بھی جاتی رہی، کیونکہ شریک حیات کو مسلسل علاج کے لئے آئے دن لاتے لے جاتے تھے سفر میں اخراجات زیادہ ہوتے تھے جبکہ دوسرے شہر میں اسپتال کے اخراجات بھی بڑھ جاتے تھے، نتیجہ یہ کہ ادھر شریک زندگی سے زندگی کا چمن خالی ہوا تو اُدھران کی جیب بھی خالی ہوگئی۔ چند دن سوگواری میں رہے۔ پھر بال بچوں کے اخراجات کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ ان دنوں انگل سلیم بہت پریشان تھے۔ صبا محض بارہ برس کی تھی اور اُس کا بھائی طارق پندرہ سال کا تھا۔ دونوں بچے ٹین ایج کے تھے جن پر نظر رکھنے اور دیکھ بھال میں توجہ خاص برتنے کی بے حد ضرورت تھی کہ دال روٹی کے لالے پڑ گئے۔ سلیم انکل کو بہت بھاگ دوڑ کے بعد ملازمت ملی۔ یہ ملازمت انہوں نے مجبوراً قبول کی کیونکہ تنخواہ کم تھی۔ وہ دوسری کسی اچھی ملازمت کی فکر میں رہتے تھے۔ گھر کو سنبھالنے والی چلی گئی تو صبا کوگھر سنبھالنا پڑ گیا۔ تاہم گھر یلو ذمہ داریاں وہ نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اُسے تو آٹا گوندھنا اور سبزی بنانا تک نہیں آتا تھا۔ خالہ شازیہ کی لاڈلی تھی۔ وہ تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ صبا نے کبھی گھریلو کام کیا اورنہ اسے آتا تھا۔ شروع میں وہ خشک آٹا امی کے پاس لے آتی اور امی روٹی بنا دیا کرتی تھیں۔ اکثر سالن بھی بنا کر بھجوا دیتیں لیکن کب تک؟ گھر میں اور سو طرح کے کام ہوتے ہیں اس عمر میں بیٹیوں کو ماؤں کے قرب کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جب انکل نے بچوں کو پریشان دیکھا، اپنی بہن سے مشورہ کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ بھائی صاحب دوسری شادی کر لو۔ ایسے تمام گھر کا انتظام نہیں چلے گا۔ کوئی سلیقہ مند اور ہمدرد دل عورت ڈھونڈتی ہوں جس کو سہارے کی ضرورت ہو تو تمہارا گھر سنبھل جائے گا اور بچوں کو بھی ماں کی ممتا مل جائے گی۔ غرض اس کے بعد انکل کی بہن آنٹی رابعہ بس اسی جستجو میں لگ گئیں۔ جب اردگرد کوئی مناسب رشتہ نہ ملا تو ایک رشتہ کرانے والی کا سہارا لیا جس کے توسط سے ایک متوسط گھرانے کی پختہ عمرلڑ کی سے رشتہ طے پا گیا، یوں سلیم انکل ، مصباح کو بیاہ کر گھر لے آئے اور خوش لباس لڑکا تھا۔ والد کا بزنس تھا لہذا اُن کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی ۔ باپ نے جواد کوگاڑی لے دی تھی ۔ وہ کالج خود گاڑی چلا کر جاتا اور جب چاہتا سیرو تفریح کو چلا جاتا۔ کچھ دن تو نئے لوگوں سے اہل محلہ لئے دیئے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں تو محلے والوں نے ان کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ پاس پڑوس سے عورتوں کا آپس میں میل جول بھی شروع ہو گیا۔ عید وغیرہ پرسوئیاں سوغات اور ماہ صیام میں افطاری ان کے گھر بھجوائی جانے لگی تو انہوں نے بھی تھوڑا سا میل جول بڑھایا۔ صبا اور میں ہم عمر تھیں۔ اُس کی امی سے میری والدہ کی ایک عرصے سے دوستی تھی ۔ دونوں کا میکہ ایک ہی محلے میں تھا اور خالہ شازیہ یعنی صبا کی والدہ امی کی ہم جماعت بھی تھیں-حسن اتفاق امی کی شادی جس خاندان میں ہوئی خالہ شازیہ بھی بیاہ کر بعد میں اس خاندان میں آگئیں ۔ یہ رشتہ امی نے اپنی ساس سے کہہ کر کروایا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ ان کی سہیلی قریب آئے۔ سلیم انکل میرے والد کے دور کے رشتہ دار تھے۔ دونوں کے والد آپس میں غالباً خالہ زاد بھائی تھے۔ بہر حال سلیم انکل کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا، لہذا امی کی کوشش کامیاب رہی اور شادی کے بعد بھی دونوں سہیلیوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا سہل ہو گیا۔ دوستی اور مضبوط ہوگئی۔ سلیم انکل اور شازیہ خالہ کواللہ تعالی نے پہلے بیٹے سے اور پھر بیٹی سے نوازا، جس کا نام انہوں نے صبا رکھا۔ انہی دنوں میرے والدین کے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی یعنی میں نے جنم لیا۔ یوں صبا مجھ سے صرف ایک ماہ بڑی تھی، جیسے ہماری ماؤں کی آپس میں مثالی دوستی تھی، ویسی ہی میری بھی صبا سے دوستی ہوگئی۔ بچپن ساتھ گزرا ، وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ہم دونوں اسکول جانے لگیں اور عمر کی منزلیں طے ہوتی گئیں۔ جن دنوں ہم ساتویں میں تھیں، خالہ شازیہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ جب حسب معمول علاج معالجہ سے فرق نہ پڑا تو تفصیلی میڈیکل چیک آپ کے لئے ان کو لاہور لے گئے ۔ کافی ٹیسٹ وغیرہ کروانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کو کینسر ہے۔ بہر حال انکل سلیم نے بیوی کا علاج کرانا شروع کیا۔ وہ بیچارے خانیوال سے لاہور آتے جاتے ۔ خالہ شازیہ کو شعائیں لگتیں یعنی ریڈی ایشن سے علاج ہوتا رہا، پھر آپریشن تجویز ہوا مگر مرض بڑھتا ہی گیا۔ آخر میں جب ان کی کیمو تھراپی آخری مراحل میں تھی تو ان کا انتقال ہو گیا۔ انکل سلیم اور ان کے بچوں کے لئے جہاں خالہ شازیہ کی وفات ایک صدمہ جانگاہ تھا، وہاں وہ بیمار بیوی کا علاج کرواتے ہوئے تقریبا کنگال ہو گئے۔ تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور ستم بالائے ستم کہ ان کی نوکری بھی جاتی رہی، کیونکہ شریک حیات کو مسلسل علاج کے لئے آئے دن لاتے لے جاتے تھے سفر میں اخراجات زیادہ ہوتے تھے جبکہ دوسرے شہر میں اسپتال کے اخراجات بھی بڑھ جاتے تھے، نتیجہ یہ کہ ادھر شریک زندگی سے زندگی کا چمن خالی ہوا تو اُدھران کی جیب بھی خالی ہوگئی۔ چند دن سوگواری میں رہے۔ پھر بال بچوں کے اخراجات کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ ان دنوں انگل سلیم بہت پریشان تھے۔ صبا محض بارہ برس کی تھی اور اُس کا بھائی طارق پندرہ سال کا تھا۔ دونوں بچے ٹین ایج کے تھے جن پر نظر رکھنے اور دیکھ بھال میں توجہ خاص برتنے کی بے حد ضرورت تھی کہ دال روٹی کے لالے پڑ گئے۔ سلیم انکل کو بہت بھاگ دوڑ کے بعد ملازمت ملی۔ یہ ملازمت انہوں نے مجبوراً قبول کی کیونکہ تنخواہ کم تھی۔ وہ دوسری کسی اچھی ملازمت کی فکر میں رہتے تھے۔ گھر کو سنبھالنے والی چلی گئی تو صبا کوگھر سنبھالنا پڑ گیا۔ تاہم گھر یلو ذمہ داریاں وہ نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اُسے تو آٹا گوندھنا اور سبزی بنانا تک نہیں آتا تھا۔ خالہ شازیہ کی لاڈلی تھی۔ وہ تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ صبا نے کبھی گھریلو کام کیا اورنہ اسے آتا تھا۔ شروع میں وہ خشک آٹا امی کے پاس لے آتی اور امی روٹی بنا دیا کرتی تھیں۔ اکثر سالن بھی بنا کر بھجوا دیتیں لیکن کب تک؟ گھر میں اور سو طرح کے کام ہوتے ہیں اس عمر میں بیٹیوں کو ماؤں کے قرب کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جب انکل نے بچوں کو پریشان دیکھا، اپنی بہن سے مشورہ کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ بھائی صاحب دوسری شادی کر لو۔ ایسے تمام گھر کا انتظام نہیں چلے گا۔ کوئی سلیقہ مند اور ہمدرد دل عورت ڈھونڈتی ہوں جس کو سہارے کی ضرورت ہو تو تمہارا گھر سنبھل جائے گا اور بچوں کو بھی ماں کی ممتا مل جائے گی۔ غرض اس کے بعد انکل کی بہن آنٹی رابعہ بس اسی جستجو میں لگ گئیں۔ جب اردگرد کوئی مناسب رشتہ نہ ملا تو ایک رشتہ کرانے والی کا سہارا لیا جس کے توسط سے ایک متوسط گھرانے کی پختہ عمرلڑ کی سے رشتہ طے پا گیا، یوں سلیم انکل ، مصباح کو بیاہ کر گھر لے آئے۔ شروع میں تو اس عورت نے چند دن بچوں کے ساتھ مناسب رویہ رکھا پھر اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ خاص طور پر صبا سے بُرا برتاؤ کرنے لگی۔ بات بات پر ڈانٹتی اور برتن وغیرہ دھلواتی ۔ کچن صاف کراتی صبا چونکہ بہت لاڈلی تھی وہ سوتیلی ماں کے رویے سے بہت پریشان رہنے لگی کیونکہ ماں اُس کی روز شکایتیں طارق اور اُس کے والد سے کرتی ۔ طارق ایک نا سمجھ لڑکا تھا۔ وہ سوتیلی ماں کی باتوں میں آکر بہن کو ڈانٹنے اور جھڑکنے لگا۔ صبا روز اسکول آتی تو مجھ سے اپنے دُکھ بیان کرتی۔ مرحومہ ماں کو یاد کر کے روتی ۔ اب وہ نہایت افسردہ ومنتشر الذہن رہنے لگی۔ میں اُسے تسلی دیتی کہ صبر کرواتنا رؤ گی تو تمہاری مرحومہ ماں کی روح کو تکلیف ہوگی۔ خوش رہا کرو تم جس قدر خوش رہوگی ، ہنسو گی اسی قدر تمہاری امی کی روح کو خوشی اور سکون ملے گا۔ صبا میری باتوں کو دل کے کانوں سے سنتی ۔ وہ اب خوش رہنے کی کوشش کرتی مگر آنٹی مصباح اس کو خوش دیکھ نہیں سکتی تھیں اور کوئی نہ کوئی نیا زخم اپنی زبان سے اُس کے نازک دل پر لگا دیتی تھیں۔ انہی دنوں ان کے اور ہمارے گھر کے سامنے ایک مکان برائے فروخت ہو گیا۔ کچھ عرصہ یہ گھر خالی رہا پھر اس میں نئے لوگ آئے۔ جنہوں نے اس کو خریدا تھا وہ دکاندار تھا اور ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو تھرڈ ایئر کا طالبعلم تھا۔ اُس کا نام جواد تھا۔ جواد ایک خوش شکل اور خوش لباس لڑکا تھا۔ والد کا بزنس تھا لہذا اُن کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی ۔ باپ نے جواد کوگاڑی لے دی تھی ۔ وہ کالج خود گاڑی چلا کر جاتا اور جب چاہتا سیرو تفریح کو چلا جاتا۔ کچھ دن تو نئے لوگوں سے اہل محلہ لئے دیئے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں تو محلے والوں نے ان کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ پاس پڑوس سے عورتوں کا آپس میں میل جول بھی شروع ہو گیا۔ عید وغیرہ پرسوئیاں سوغات اور ماہ صیام میں افطاری ان کے گھر بھجوائی جانے لگی تو انہوں نے بھی تھوڑا سا میل جول بڑھایا۔ جواد کے والد صبح سویرے دکانداری کو گھر سے نکل جاتے ۔ گھر میں جواد کے علاوہ اس کی بہن اور والدہ رہ جاتے ۔ یہ بھی اسکول کالج چلے جاتے تب ماں اکیلی ہو بیٹھتی۔ اُن کے یہاں جزوقتی ملازمہ آتی تھی جو کبھی کبھار ہمارے گھر بھی آنکلتی۔ اُس کی زبانی جواد کی والدہ کے بارے میں پتہ چلا کہ کچھ بیمار رہتی ہیں، زیادہ کہیں آتی جاتی نہیں ہیں لیکن با اخلاق نیک اطوار اور سیدھی سادی خاتون ہیں۔ امی بھی ایک بارمل کر آگئیں اور بتایا کہ نیک نمازی عورت ہے۔ زیادہ تر اپنے بچوں کے کاموں میں ہی مشغول رہتی ہے۔ محلے والوں کی ٹوہ لینے کی اُسے فرصت نہیں تھی۔ جواد کی بہن جویریہ ایک روز ہمارے گھر آئی اور بولی کہ اسے نزدیکی اسکول میں داخلہ لینا ہے۔ پہلے والا اسکول کافی دور پڑتا ہے۔ اس وقت صبا بھی ہمارے گھر آئی ہوئی تھی اور میرے پاس بیٹھی تھی کیونکہ ہم دونوں روز مل کر اسکول کا کام کیا کرتی تھیں۔ ہم نے اُسے اپنے اسکول کا بتایا یہ بھی کہ اسکول کے منتظم ابو کے دوست ہیں ، اپنے والد سے کہو کہ آکر میرے ابو سے مل لیں ۔ تمہارا بھی ٹرانسفر پرانے اسکول سے نئے اسکول میں کروا دیں گے۔ یہ ہماری جویریہ سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد وہ ہمارے اسکول میں آگئی ۔ ہم نویں جماعت میں تھیں ۔ اب ایک ہی گلی سے ہم تین لڑکیاں ایک ساتھ اسکول جانے لگیں۔ جلد ہی جویریہ سے ہماری اچھی دوستی ہوگئی، تاہم مجھ سے زیادہ صبا اُس میں دلچسپی لینے لگی۔ ایک دن وہ آیا کہ میری یہ گہری اور پرانی دوست جویریہ سے زیادہ قریب ہوگئی۔ چونکہ وہ اب بھی اپنے باپ کی لاڈلی تھی اور انکل کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ صبا کی ماں فوت ہوگئی ہے لہذا اس کی دل جوئی کے خیال سے وہ اُسے میرے یا جویریہ کے گھر آنے جانے سے منع نہیں کرتے تھے۔ باپ کی شہ تھی کہ وہ سوتیلی ماں کے روکنے پر بھی نہ رکتی۔ جب اس کا دل چاہتا ہمارے گھر آجاتی۔ میں نے محسوس کیا جب سے وہ جویریہ کے گھر جانے لگی تھی، اُس کی افسردگی میں کمی آ گئی تھی۔ وہ اب پہلے سے زیادہ نارمل اور خوش رہنے لگی، مجھ سے زیادہ وقت جویریہ کے ساتھ گزارتی۔ ان دنوں چونکہ پڑھائی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت تھی اور میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرنے کی آرزو بھی تھی تو میں نے بھی اس بات کو زیادہ محسوس نہ کیا کہ صبا کا کیوں جویریہ کی طرف جھکاؤ ہو گیا ہے۔ وہ چونکہ خوش رہنے لگی تھی لہذا مجھے بھی بھلا لگتا کہ وہ جویریہ سے ملے تا کہ پھول کی مانند کلی کھلی نظر آئے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس کے بھائی جواد کی خاطر اس نے جویریہ سے راہ و رسم بڑھالی ہے۔ اسے جواد پسند آ گیا تھا اور وہ اس عشق میں گرفتار ہوگئی تھی صبا اور میں ہم عمر تھیں۔ اُس کی امی سے میری والدہ کی ایک عرصے سے دوستی تھی ۔ دونوں کا میکہ ایک ہی محلے میں تھا اور خالہ شازیہ یعنی صبا کی والدہ امی کی ہم جماعت بھی تھیں-حسن اتفاق امی کی شادی جس خاندان میں ہوئی خالہ شازیہ بھی بیاہ کر بعد میں اس خاندان میں آگئیں ۔ یہ رشتہ امی نے اپنی ساس سے کہہ کر کروایا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ ان کی سہیلی قریب آئے۔ سلیم انکل میرے والد کے دور کے رشتہ دار تھے۔ دونوں کے والد آپس میں غالباً خالہ زاد بھائی تھے۔ بہر حال سلیم انکل کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا، لہذا امی کی کوشش کامیاب رہی اور شادی کے بعد بھی دونوں سہیلیوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا سہل ہو گیا۔ دوستی اور مضبوط ہوگئی۔ سلیم انکل اور شازیہ خالہ کواللہ تعالی نے پہلے بیٹے سے اور پھر بیٹی سے نوازا، جس کا نام انہوں نے صبا رکھا۔ انہی دنوں میرے والدین کے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی یعنی میں نے جنم لیا۔ یوں صبا مجھ سے صرف ایک ماہ بڑی تھی، جیسے ہماری ماؤں کی آپس میں مثالی دوستی تھی، ویسی ہی میری بھی صبا سے دوستی ہوگئی۔ بچپن ساتھ گزرا ، وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ ہم دونوں اسکول جانے لگیں اور عمر کی منزلیں طے ہوتی گئیں۔ جن دنوں ہم ساتویں میں تھیں، خالہ شازیہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ جب حسب معمول علاج معالجہ سے فرق نہ پڑا تو تفصیلی میڈیکل چیک آپ کے لئے ان کو لاہور لے گئے ۔ کافی ٹیسٹ وغیرہ کروانے کے بعد پتہ چلا کہ ان کو کینسر ہے۔ بہر حال انکل سلیم نے بیوی کا علاج کرانا شروع کیا۔ وہ بیچارے خانیوال سے لاہور آتے جاتے ۔ خالہ شازیہ کو شعائیں لگتیں یعنی ریڈی ایشن سے علاج ہوتا رہا، پھر آپریشن تجویز ہوا مگر مرض بڑھتا ہی گیا۔ آخر میں جب ان کی کیمو تھراپی آخری مراحل میں تھی تو ان کا انتقال ہو گیا۔ انکل سلیم اور ان کے بچوں کے لئے جہاں خالہ شازیہ کی وفات ایک صدمہ جانگاہ تھا، وہاں وہ بیمار بیوی کا علاج کرواتے ہوئے تقریبا کنگال ہو گئے۔ تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور ستم بالائے ستم کہ ان کی نوکری بھی جاتی رہی، کیونکہ شریک حیات کو مسلسل علاج کے لئے آئے دن لاتے لے جاتے تھے سفر میں اخراجات زیادہ ہوتے تھے جبکہ دوسرے شہر میں اسپتال کے اخراجات بھی بڑھ جاتے تھے، نتیجہ یہ کہ ادھر شریک زندگی سے زندگی کا چمن خالی ہوا تو اُدھران کی جیب بھی خالی ہوگئی۔ چند دن سوگواری میں رہے۔ پھر بال بچوں کے اخراجات کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ ان دنوں انگل سلیم بہت پریشان تھے۔ صبا محض بارہ برس کی تھی اور اُس کا بھائی طارق پندرہ سال کا تھا۔ دونوں بچے ٹین ایج کے تھے جن پر نظر رکھنے اور دیکھ بھال میں توجہ خاص برتنے کی بے حد ضرورت تھی کہ دال روٹی کے لالے پڑ گئے۔ سلیم انکل کو بہت بھاگ دوڑ کے بعد ملازمت ملی۔ یہ ملازمت انہوں نے مجبوراً قبول کی کیونکہ تنخواہ کم تھی۔ وہ دوسری کسی اچھی ملازمت کی فکر میں رہتے تھے۔ گھر کو سنبھالنے والی چلی گئی تو صبا کوگھر سنبھالنا پڑ گیا۔ تاہم گھر یلو ذمہ داریاں وہ نہیں سنبھال سکتی تھی۔ اُسے تو آٹا گوندھنا اور سبزی بنانا تک نہیں آتا تھا۔ خالہ شازیہ کی لاڈلی تھی۔ وہ تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ صبا نے کبھی گھریلو کام کیا اورنہ اسے آتا تھا۔ شروع میں وہ خشک آٹا امی کے پاس لے آتی اور امی روٹی بنا دیا کرتی تھیں۔ اکثر سالن بھی بنا کر بھجوا دیتیں لیکن کب تک؟ گھر میں اور سو طرح کے کام ہوتے ہیں اس عمر میں بیٹیوں کو ماؤں کے قرب کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جب انکل نے بچوں کو پریشان دیکھا، اپنی بہن سے مشورہ کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ بھائی صاحب دوسری شادی کر لو۔ ایسے تمام گھر کا انتظام نہیں چلے گا۔ کوئی سلیقہ مند اور ہمدرد دل عورت ڈھونڈتی ہوں جس کو سہارے کی ضرورت ہو تو تمہارا گھر سنبھل جائے گا اور بچوں کو بھی ماں کی ممتا مل جائے گی۔ غرض اس کے بعد انکل کی بہن آنٹی رابعہ بس اسی جستجو میں لگ گئیں۔ جب اردگرد کوئی مناسب رشتہ نہ ملا تو ایک رشتہ کرانے والی کا سہارا لیا جس کے توسط سے ایک متوسط گھرانے کی پختہ عمرلڑ کی سے رشتہ طے پا گیا، یوں سلیم انکل ، مصباح کو بیاہ کر گھر لے آئے۔ شروع میں تو اس عورت نے چند دن بچوں کے ساتھ مناسب رویہ رکھا پھر اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ خاص طور پر صبا سے بُرا برتاؤ کرنے لگی۔ بات بات پر ڈانٹتی اور برتن وغیرہ دھلواتی ۔ کچن صاف کراتی صبا چونکہ بہت لاڈلی تھی وہ سوتیلی ماں کے رویے سے بہت پریشان رہنے لگی کیونکہ ماں اُس کی روز شکایتیں طارق اور اُس کے والد سے کرتی ۔ طارق ایک نا سمجھ لڑکا تھا۔ وہ سوتیلی ماں کی باتوں میں آکر بہن کو ڈانٹنے اور جھڑکنے لگا۔ صبا روز اسکول آتی تو مجھ سے اپنے دُکھ بیان کرتی۔ مرحومہ ماں کو یاد کر کے روتی ۔ اب وہ نہایت افسردہ ومنتشر الذہن رہنے لگی۔ میں اُسے تسلی دیتی کہ صبر کرواتنا رؤ گی تو تمہاری مرحومہ ماں کی روح کو تکلیف ہوگی۔ خوش رہا کرو تم جس قدر خوش رہوگی ، ہنسو گی اسی قدر تمہاری امی کی روح کو خوشی اور سکون ملے گا۔ صبا میری باتوں کو دل کے کانوں سے سنتی ۔ وہ اب خوش رہنے کی کوشش کرتی مگر آنٹی مصباح اس کو خوش دیکھ نہیں سکتی تھیں اور کوئی نہ کوئی نیا زخم اپنی زبان سے اُس کے نازک دل پر لگا دیتی تھیں۔ انہی دنوں ان کے اور ہمارے گھر کے سامنے ایک مکان برائے فروخت ہو گیا۔ کچھ عرصہ یہ گھر خالی رہا پھر اس میں نئے لوگ آئے۔ جنہوں نے اس کو خریدا تھا وہ دکاندار تھا اور ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو تھرڈ ایئر کا طالبعلم تھا۔ اُس کا نام جواد تھا۔ جواد ایک خوش شکل اور خوش لباس لڑکا تھا۔ والد کا بزنس تھا لہذا اُن کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی ۔ باپ نے جواد کوگاڑی لے دی تھی ۔ وہ کالج خود گاڑی چلا کر جاتا اور جب چاہتا سیرو تفریح کو چلا جاتا۔ کچھ دن تو نئے لوگوں سے اہل محلہ لئے دیئے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں تو محلے والوں نے ان کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ پاس پڑوس سے عورتوں کا آپس میں میل جول بھی شروع ہو گیا۔ عید وغیرہ پرسوئیاں سوغات اور ماہ صیام میں افطاری ان کے گھر بھجوائی جانے لگی تو انہوں نے بھی تھوڑا سا میل جول بڑھایا۔ جواد کے والد صبح سویرے دکانداری کو گھر سے نکل جاتے ۔ گھر میں جواد کے علاوہ اس کی بہن اور والدہ رہ جاتے ۔ یہ بھی اسکول کالج چلے جاتے تب ماں اکیلی ہو بیٹھتی۔ اُن کے یہاں جزوقتی ملازمہ آتی تھی جو کبھی کبھار ہمارے گھر بھی آنکلتی۔ اُس کی زبانی جواد کی والدہ کے بارے میں پتہ چلا کہ کچھ بیمار رہتی ہیں، زیادہ کہیں آتی جاتی نہیں ہیں لیکن با اخلاق نیک اطوار اور سیدھی سادی خاتون ہیں۔ امی بھی ایک بارمل کر آگئیں اور بتایا کہ نیک نمازی عورت ہے۔ زیادہ تر اپنے بچوں کے کاموں میں ہی مشغول رہتی ہے۔ محلے والوں کی ٹوہ لینے کی اُسے فرصت نہیں تھی۔ جواد کی بہن جویریہ ایک روز ہمارے گھر آئی اور بولی کہ اسے نزدیکی اسکول میں داخلہ لینا ہے۔ پہلے والا اسکول کافی دور پڑتا ہے۔ اس وقت صبا بھی ہمارے گھر آئی ہوئی تھی اور میرے پاس بیٹھی تھی کیونکہ ہم دونوں روز مل کر اسکول کا کام کیا کرتی تھیں۔ ہم نے اُسے اپنے اسکول کا بتایا یہ بھی کہ اسکول کے منتظم ابو کے دوست ہیں ، اپنے والد سے کہو کہ آکر میرے ابو سے مل لیں ۔ تمہارا بھی ٹرانسفر پرانے اسکول سے نئے اسکول میں کروا دیں گے۔ یہ ہماری جویریہ سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد وہ ہمارے اسکول میں آگئی ۔ ہم نویں جماعت میں تھیں ۔ اب ایک ہی گلی سے ہم تین لڑکیاں ایک ساتھ اسکول جانے لگیں۔ جلد ہی جویریہ سے ہماری اچھی دوستی ہوگئی، تاہم مجھ سے زیادہ صبا اُس میں دلچسپی لینے لگی۔ ایک دن وہ آیا کہ میری یہ گہری اور پرانی دوست جویریہ سے زیادہ قریب ہوگئی۔ چونکہ وہ اب بھی اپنے باپ کی لاڈلی تھی اور انکل کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ صبا کی ماں فوت ہوگئی ہے لہذا اس کی دل جوئی کے خیال سے وہ اُسے میرے یا جویریہ کے گھر آنے جانے سے منع نہیں کرتے تھے۔ باپ کی شہ تھی کہ وہ سوتیلی ماں کے روکنے پر بھی نہ رکتی۔ جب اس کا دل چاہتا ہمارے گھر آجاتی۔ میں نے محسوس کیا جب سے وہ جویریہ کے گھر جانے لگی تھی، اُس کی افسردگی میں کمی آ گئی تھی۔ وہ اب پہلے سے زیادہ نارمل اور خوش رہنے لگی، مجھ سے زیادہ وقت جویریہ کے ساتھ گزارتی۔ ان دنوں چونکہ پڑھائی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت تھی اور میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کرنے کی آرزو بھی تھی تو میں نے بھی اس بات کو زیادہ محسوس نہ کیا کہ صبا کا کیوں جویریہ کی طرف جھکاؤ ہو گیا ہے۔ وہ چونکہ خوش رہنے لگی تھی لہذا مجھے بھی بھلا لگتا کہ وہ جویریہ سے ملے تا کہ پھول کی مانند کلی کھلی نظر آئے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس کے بھائی جواد کی خاطر اس نے جویریہ سے راہ و رسم بڑھالی ہے۔ اسے جواد پسند آ گیا تھا اور وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔ امر ہے۔ اب وہ جب آتی ہنستی مسکراتی اور اچھے اچھے کپڑے پہنے لگی میں نے کریدا تب ایک روز خود ہی بتا دیا کہ وہ جواد کو پسند کرتی ہے اور اسی سے ملنے اُن کے گھر جاتی ہے۔ سہ پہر کو ان کی ماں دوا کھا کر سو جاتی تھیں۔ جویریہ پڑھنے بیٹھ جاتی اور یہ جواد کے کمرے میں جا کر اس سے گپ شپ میں مصروف ہو جاتی۔ صبا ایسی ویسی لڑکی تو نہ تھی۔ اُس کی میری دوستی بچپن سے تھی لیکن اب وہ جانے کیوں ایسی ہوگئی اور اتنی بدل گئی کہ میں حیران ہوتی نہیں جانتی تھی کہ، یہ تو وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے- اب وہ بے حجاب مزے لے لے کر جواد کی باتیں کرتی۔ تب میں سمجھاتی کہ صبا سنبھل جاؤ تمہاری ماں سوتیلی ہے ایسا نہ ہو کہ یہ والہانہ پن تمہاری جان لے لے، کیونکہ راز کی بات کبھی نہ کبھی تو کھل ہی جاتی ہے، پھر جب بات کھلتی ہے تو گلی گلی عام ہو جاتی ہے۔ دونوں وارفتنگی سے ایک دوسرے کو چاہنے لگے تو صبا کی ماں جواب خود بھی اپنی کوکھ کے دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس نے صبا پر روک ٹوک شروع کر دی۔ جس پر اس لڑکی نے منہ زوری دکھائی۔ ماں نے باپ اور اس کے بھائی سے شکایت کر دی کہ اُس کا بہت زیادہ پڑوس میں آنا جانا درست نہیں ہے کیونکہ ان کے گھر ایک جوان لڑکا بھی ہے اور وہ ابھی بھی نئے رہائشی ہی شمار ہوتے ہیں۔ انہی دنوں صبا کے ابو کو کویت میں اچھی ملازمت مل گئی۔ چار بچوں کی اچھی پرورش اور کفالت کی خاطر وہ، بچے بیوی کے حوالے کر کے خود بیرون ملک چلے گئے ۔ طارق اب سترہ برس کا ہو چکا تھا۔ سوتیلی ماں نے اس بیٹے سے بنا کر رکھی کیونکہ اُس کے بہت سے باہر کے کام کاج وہ خندہ پیشانی سے کر دیتا تھا۔ روک ٹوک سے تو جذبے اور شدت اختیار کرتے ہیں، جب ماں نے بار بار طارق کے کان کھائے تو اس نے بہن کو جویریہ کے گھر جانے سے روک دیا۔ صبا کہنا نہ مانتی تو طارق اس کو مارنے پر آجاتا ۔ ہر روز بہن اور بھائی میں جھگڑا ہونے لگا۔ اُن کے جھگڑنے ، چیخنے چلانے کی آواز ہمارے گھر تک آنے لگی۔ صبا کی وہ روز روز کی آہ وزاری، میں سوچتی نجانے کب اس کو عقل آئے گی اور یہ جھگڑا ختم ہوگا۔ جب اُس کو سمجھاتی تو جواب دیتی کہ اب تو یہ جھگڑا لیلی یا مجنوں کی موت کے بعد ہی ختم ہوگا۔ بھائی کوتو وہ کچھ سمجھتی نہ تھی اور باپ کی غیر موجودگی نے اُسے اور دلیر بنا دیا تھا۔ مشکل تو یہ تھی کہ لڑکا لڑکی ہی محض راضی تھے مگر کوئی اور راضی نہ تھا یہاں تکہ کہ جواد کے گھر والے بھی صبا کا اپنے گھر آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک روز جبکہ انکل آگئے۔ میں اُن کے گھر ملنے گئی تو دیکھا کہ صبا رور ہی تھی۔ انکل کا بھی موڈ بہت خراب تھا۔ اُدھر سنا کہ جواد کے گھر والے چلے گئے ہیں اور مکان برائے فروخت ہو گیا ہے۔ ہم نے انہی دنوں میٹرک کے سالانہ پرچے دیئے تھے، اسکول میں چھٹیاں ہوگئی تھیں ، اس لئے میری جویریہ سے ملاقات نہ ہوئی اور صبا بھی کچھ دن سے ہمارے گھر نہیں آرہی تھی تبھی میں نے سوچا کہ اُس کے گھر جا کر پتہ کروں کیا بات ہے -میں نے تو بچپن سے میٹرک تک کا تمام وقت صبا کے ساتھ گزارا تھا۔ جانتی تھی کہ وہ بری لڑکی نہیں ہے لیکن وہ اب سرکش ضرور ہوگئی تھی۔ شاید سوتیلی ماں کے بُرے سلوک کا ردعمل تھا۔ اُدھر باپ کا بیرون ملک چلے جانا اور بھائی کا ہر دم اُس سے جھگڑنا۔ اُس پر ماں کی شکایتوں اور طارق کی مار پیٹ سے اُس نے اور پر پرزے نکال لئے تو گھر والوں نے اس قدر سختی کی کہ جواد کی چاہت میں دیوانی ہو کر اس نے نئی راہیں تراش لیں، جب جواد کی والدہ نے اس کو اپنے گھر آنے سے منع کیا تو وہ آدھی رات کو تاریک گلی میں اُس سے ملنے کو نکل جاتی ۔ میں نے تو بچپن سے میٹرک تک کا تمام وقت صبا کے ساتھ گزارا تھا۔ جانتی تھی کہ وہ بری لڑکی نہیں ہے لیکن وہ اب سرکش ضرور ہوگئی تھی۔ شاید سوتیلی ماں کے بُرے سلوک کا ردعمل تھا۔ اُدھر باپ کا بیرون ملک چلے جانا اور بھائی کا ہر دم اُس سے جھگڑنا۔ اُس پر ماں کی شکایتوں اور طارق کی مار پیٹ سے اُس نے اور پر پرزے نکال لئے تو گھر والوں نے اس قدر سختی کی کہ کی چاہت میں دیوانی ہو کر اس نے نئی راہیں تراش لیں، جب جواد کی والدہ نے اس کو اپنے گھر آنے سے منع کیا تو وہ آدمی رات کو تاریک گلی میں اُس سے ملنے کو نکل جاتی ۔ یہ سب وہ مجھے بتائی تو میں اُسے بہت سمجھاتی تھی۔ ہاتھ تک جوڑے کہ صبا خدا کے لئے ہوش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ انکل کو خبر ہو جائے وہ آکر تمہاری تعلیم ختم کرادیں اور جلدی میں کسی ایسے سے بیاہ دیں کہ پھر اپنی ان بے وقوفیوں پر پچھتاتی رہ جاؤ! اُس کی مگر نوبت نہ آئی، جواد اور اُس کے گھر والے مکان فروخت کر کے چلے گئے اور پھر انکل کے آنے کے دو ہفتہ بعد ہی اچانک پتہ چلا کہ صبا فوت ہوگئی ہے۔یہ حیران کن سا واقعہ تھا کیونکہ وہ صحت مند تھی، اسے کوئی بیماری نہ تھی۔ وہ ایسی نہ تھی کہ خودکشی کرتی ، اُسے زندگی سے پیار ہو گیا تھا۔ اس نے کبھی مرنے کا لفظ لبوں سے نہیں نکالا تھا. پھر وہ اچانک کیسے مرگئی؟ یہ ایک بہت بڑا سوال تھا اور ہم سب کا صدمے سے بُرا حال تھا۔ صبا کی ماں کے لبوں پر جو داستان تھی وہ بھی کھوکھلی لگتی تھی۔ اس کا کہنا تھا بس دون کے بخار میں چٹ پٹ ہوگئی ۔ خدا جانے کیسا بخار آیا کہ اس کو سانس لینے کا موقع بھی نہ دیا۔ محلے والے بھی سناٹے میں آگئے ۔ وہ منہ سے کچھ نہ کہتے تھے مگر دبی زبان سے آپس میں شکوک کا اظہار کر رہے تھے، ایک نرس نے جو اس کی سوتیلی ماں کی جاننے والی تھی اُسے آخری غسل دیا۔ میٹرک کے بعد میرے لئے اچھا رشتہ آگیا۔ صبا کے بعد میرے آگے پڑھنے اور کالج جانے کے ارمان بھی ٹھٹھر کر رہ گئے۔ بچپن کا ساتھ یاد آتا تو آنسو نہ تھمتے تھے۔ دل پڑھائی سے اُچاٹ ہو گیا۔ ابو بھی بیمار رہنے لگے تھے، امی نے سمجھا بجھا کر مجھے شادی کے لئے راضی کر لیا، یوں میری شادی انسپکٹر جلیل سے ہو گئی جو میری امی کے کزن کے بیٹے تھے۔ میں بیاہ کر جس محلے میں گئی وہ ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ شادی کے سال بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے سرفراز کیا تو والدہ چند دن میرے پاس آ کر ٹھہریں۔ انہی دنوں میری طبیعت خراب ہو گئی، ہم اسپتال آئے تو وہاں ایک نرس پر میرے شوہر کی نظر پڑ گئی۔ وہ اسے بغور دیکھنے لگے۔ پہلے تو میں نے نظر انداز کیا لیکن جب کئی بار انہوں نے اُس کی جانب تکا تو مجھے برا لگا اور میں نے آہستہ سے کہا۔ آپ اس نرس کو گھور رہے ہیں کیوں ؟ وہ جھینپے نہیں بلکہ کہنے لگے مجھے غلط مت سمجھو میں ایک معمے کا حل تلاش کر رہا ہوں۔ان دنوں میں خاصی کمز ور اور زود رنج ہورہی تھی۔ والدہ نے اس نرس سے کہا اگر تم گھر آکر میری بیٹی کو انجکشن لگا دیا کرو تو میں تم کو معاوضہ دے دیا کروں گی جو تم کہوگی۔ نرس نے پوچھا۔ آپ کہاں رہتی ہیں ۔ امی نے اپنے گھر کا پتہ بتا دیا کیونکہ ان کا ارادہ مجھے اپنے گھر چند دن ٹھہرانے کا تھا تا کہ وہ میری اور میرے بیٹے کی صحیح دیکھ بھال اپنے گھر رہ کر کر سکیں۔ نرس نے ہامی بھر لی بولی ٹھیک ہے میں آجاؤں گی آپ کے گھر سے میرا گھر زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ آپ کا گھر سلیم صاحب کے مکان کے قریب ہے نا .. والدہ نے کہا۔ ہاں لیکن تم ان لوگوں کو کیسے جانتی ہو؟ بس یونہی ایک بار کسی وجہ سے جانا ہوا تھا، اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ اگلے روز شام کو نرس آگئی۔ مجھے انجکشن لگنا تھا۔ اتفاق سے میرے میاں، امی کے گھر بیٹھے تھے۔ انہوں نے دوبارہ اُسے غور سے دیکھا پھر بولے شادی سے قبل ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ آپ لوگوں کے گھر آیا تھا تو میں نے اس عورت کو سلیم انگل کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ مجھے اس پر شک ہے۔ اُس دن تو دھیان میں نہ آیا لیکن اب جبکہ پتہ چلا ہے کہ یہ نرس ہے تو میرے ذہن میں تمہاری سہیلی صبا کی ناگہانی موت کا سبب ایک اندیشے کے ساتھ ابھر آیا ہے۔ آپ کسی شک میں پڑ گئے ہیں۔ آخر پولیس والے ہیں نا آپ لوگوں کو تو سبھی مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔ بولے ٹھیک ہے لیکن مجھے اب صبا کی اچانک موت کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے، جیسی کہ اُس کی تمام رام کہانی تم نے سنائی تھی۔ اس کے پس منظر میں پھر جواد کے گھر والوں کا اچانک گھر فروخت کر کے کوچ کر جانا۔ میں حیران تھی کہ انہیں کیا ہو گیا ہے۔ واقعہ کے ایک سال کے بعد انہیں بال کی کھال اُتارنے کی سوجھی ہے۔ پولیس والوں کی تو عادت ہوتی ہے بال کی کھال اتارنے کی ، ورنہ مجرم کیسے پکڑے جائیں۔ انہوں نے نرس کے بارے میں معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ ایک روز پتہ چلا کہ نرس گرفتار ہوگئی ہے اور اس کو گرفتار کرانے میں جلیل صاحب کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ گرفتار تو وہ کسی اور کیس میں ہوئی تھی مگر جب پولیس نے اس سے اپنے طریقے سے تفتیش کی تو اس نے اپنے سابقہ قصور بھی اگل دیئے۔ صبا کا بھی نام لیا کہ کس طرح اس کے والدین پریشان تھے اور انہوں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر اس کو گھر بلایا اور معاونت کی درخواست کی تھی۔ اس نے کہا اکثر کیسوں میں تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے مگر صبا کی بد قسمتی کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ اس کے والدین نے اپنی عزت بچانے کی کوشش میں اس اناڑی عورت کا سہارا لیا تھا۔ میرے شوہر نے انکل سلیم کو تو گرفتاری سے بچالیا مگر نرس کو نہیں بچایا کیونکہ وہ کئی ایسے کیسوں میں ماضی میں معاون ثابت ہوئی تھی۔ بہرحال خدا ہر کسی کی بیٹی کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، کیونکہ بیٹیاں ہی تو ماں باپ کی عزت کی لاج ہوتی ہیں۔ اگر وہ لغزشوں کا شکار ہو جائیں تو یقینا عزت کے ساتھ کبھی کبھار جان بھی گنوانی پڑ جاتی ہے۔

Comments