پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد

شیڈول جاری ہوگیا اب تو انتخابی نشان نہیں روکا جاسکتا، صاف نظر آرہا ہے ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے، اگر پانی سر سے گزرا ہوگا تو کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا۔ دوران سماعت ریمارکس Sajid Ali ساجد علی منگل 26 دسمبر 2023 16:23 پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 26 دسمبر 2023ء ) پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کوپشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا جس پر سماعت ہوئی، تحریک انصاف کی درخواست پر جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سماعت کی، پی ٹی آئی کے وکلا علی ظفر، بابر اعوان اور بیرسٹر گوہر نے دلائل دیئے۔ علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے، الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آگیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے، الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا، اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، اس طرح ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے باہر کردیا گیا۔ دوران سماعت علی ظفر کے دلائل پر جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ اس کیس میں جو درخواست گزار تھے ان کا الیکشن کمیشن فیصلے میں ذکر ہے یہ کون ہیں؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہے، الیکشن نہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے لیکن ہمیں یہاں الیکشن سے باہر نکالا جارہاہے۔ عدالت نے کہا کہ الیکشن کمشن کہتا ہے عمر ایوب جنرل سیکرٹری نہیں، انہوں نے چیف الیکشن کمشنرکیسے مقرر کیا، اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جاسکتا ہے، آئین وقانون یہی کہتا ہے۔

Comments